Arshi khan

Add To collaction

منٹو کے افسانے भाग 3

منٹو کے افسانے 4

خادمہ
رات.... سیزدہ سالہ آیا ’’ وارکا‘‘ جھولے کو آہستہ آہستہ ہلا رہی ہے۔ جس میں ننھا سا بچہ لیٹا ہوا ہے اور دبی زبان میں لوری گنگنا رہی ہے۔ ’’ سو جاؤ میرے ننھے چاند سو جاؤ.... میں تمہیں لوری دے رہی ہوں۔‘‘ جھولے کے سامنے ایک سبز رنگ کا لیمپ جل رہا ہے۔ کمرے میں ایک رسی پر سیاہ پتلون اور ننھے کے کپڑے لٹک رہے ہیں جن کے لمبے لمبے سائے وار کا اور بچے کے جھولے پر پڑ رہے ہیں .... لیمپ کی بتی کے شعلے کے ساتھ سائے بھی رقص کرنا شروع کر دیتے ہیں ، جیسے تیز ہوا میں پتیاں کانپ رہی ہوں۔ کمرے میں سخت حبس ہو رہا ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے گوبھی کا بدبو دار شوربہ پاس ہی رکھا ہو یا یہ جگہ کسی بوٹ بنانے والے کی دوکان ہو۔ بچہ چلا رہا ہے۔ گو اسے چلاتے چلاتے یہ وقت آ گیا اور وہ اس چیخ پکار سے تھکا ہوا معلوم ہوتا ہے مگر پھر بھی روئے جا رہا ہے اور یہ معلوم نہیں کہ کب چپ ہو۔ بیچاری وارکا کو نیند آ رہی ہے۔ نیند کے غلبہ سے آنکھیں بند ہو رہی ہیں۔ سر آگے کو جھکا جا رہا ہے۔ گردن میں شدت کا درد ہو رہا ہے۔ اس میں اتنی طاقت نہیں کہ لبوں یا آنکھوں کو ہلا سکے۔ اسے ایسا معلوم ہو رہا ہے کہ اس کا کاسہ سر خشک چوب سے تراشا ہوا ہے اور سکڑ کر سوئی کے سرے برابر رہ گیا ہے۔ ’’ سو جاؤ میرے ننھے چاند سو جاؤ....‘‘ وہ برابر گنگنا رہی ہے۔ جھینگر درد ناک راگ الاپنے میں مصروف ہیں۔ ملحقہ کمرے سے آقا اور اس کے شاگرد افانسی کے خراٹوں کی آواز آ رہی ہے۔ بچے کا جھولا غمناک آواز پیدا کر رہا ہے۔ یہ تمام آوازیں مل کر ایک تسکین بخش راگ پیدا کر رہی ہیں۔ ان اشخاص کے لئے جو بستر میں آرام سے لیٹے ہوں۔ مگر اس وقت یہ راگ تکلیف دہ اور گرانبار معلوم ہو رہا ہے۔ اس لئے کہ اس کی موجودگی میں وار کا کا سو جانا یقینی ہے۔ اور اگر وارکا خدا نہ کرے، خدا نہ کرے سو جائے تو اس کا آقا اور مالکہ اسے خوب مار پیٹ کرے۔ لیمپ کی بتی کانپنے لگتی ہے سر سبز روشنی کے دھبے اور لانبے لانبے سائے حرکت کرنے لگ جاتے ہیں۔ جو وار کا کی نیم وا، خواب آلود آنکھوں اور تھکے ہوئے دماغ کے سامنے دھند میں لپٹی ہوئی تصویریں معلوم ہوتی ہیں۔ اب اس کی نظروں میں یہ دھندلی تصویریں سیاہ بادلوں کی صورت اختیار کر لیتی ہیں جو آسمان میں ایک دوسرے کا تعاقب کر رہے ہوں۔ یکایک ہوا چلتی ہے جو بادلوں کو منتشر کر دیتی ہے اب وار کا پتلے کیچڑ سے بھری ہوئی ایک وسیع سڑک کو دیکھتی ہے جس کے دائیں بائیں چھکڑے قطار در قطار کھڑے ہیں اور درمیان میں لوگ کندھوں پر تھیلے اٹھائے تکان سے چُور چل رہے ہیں .... دفعتاً یہ لوگ معہ اپنے تھیلوں کے کیچڑ میں گر پڑتے ہیں۔ ’’ تم کیوں گرے ہو؟‘‘ وار کا ان سے سوال کرتی ہے۔ وہ جواب دیتے ہیں ’’ سونے کے لئے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ گہری اور میٹھی نیند سو جاتے ہیں جبکہ کوے اور نیل کنٹھ بجلی کی تاروں پر بیٹھے ان کو جگانے کے لئے بچوں کی طرح چیخ رہے ہوتے ہیں۔ ’’ سو جاؤ میرے ننھے چاند سو جاؤ.... وارکا گنگناتی اور اپنے آپ کو ایک تنگ و تار جھونپڑی میں پاتی ہے جہاں اس کا مرحوم باپ درد کی وجہ سے زمین پر لیٹ رہا ہے۔ درد کی شدت کا یہ عالم ہے کہ وہ منہ سے سوائے اف.... اف .... اف اور کچھ نہیں بول سکتا۔ اسکی ماں پلیو گیویا گھر میں موجود نہیں۔ کیونکہ وہ آقا کو خبر دینے گئی ہوئی ہے کہ یافین مر رہا ہے۔ اس کو گئے ہوئے ایک عرصہ گزر چکا ہے۔ حالانکہ اس وقت تک اسے واپس آ جانا چاہیے تھا۔ وارکا انگیٹھی کے قریب خاموش بیٹھی ہوئی اپنے والد کو کراہتا سن رہی ہے۔ دفعتاً وہ جھونپڑی کے باہر کسی گاڑی کی آواز سنتی ہے.... اتنے میں ایک جوان ڈاکٹر اندر داخل ہوتا ہے جس کا چہرہ تاریکی کی وجہ سے بخوبی نظر نہیں آتا.... وار کا اسے اتنا کہتا ہوا سنتی ہے: ’’ روشنی کرو۔‘‘ جواب میں یافین اف اف کے سوا کچھ اور نہیں کہہ سکتا۔ پلیو گیو یا دیا سلائی ڈھونڈنے کی خاطر انگیٹھی کی طرف دوڑتی ہے....ایک منٹ مکمل خاموشی میں گزر جاتا ہے۔ اس کے بعد ڈاکٹر اپنی جیب سے دیا سلائی نکال کر روشن کرتا ہے.... ’’ جناب! ذرا اسے روشن ہی رکھئے.... میں ابھی آئی۔ یہ کہتی ہوئی پلیو گیویا جھونپڑی کے باہر دوڑ کر موم بتی کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا لاتی ہے۔ یافین کے رخسار سرخ ہو رہے ہیں اور اس کی آنکھیں غیر معمولی طور پر چمک رہی ہیں۔ جیسے وہ جھونپڑی اور ڈاکٹر کو چیرتی ہوئی کسی موہوم چیز کا مطالعہ کر رہی ہوں۔ ’’ میاں کیا سوچ رہے ہو؟.... کب سے یہ تکلیف ہے تمہیں ؟‘‘ ڈاکٹر اس کی طرف جھکتے ہوئے کہتا ہے۔ ’’ جناب! مر رہا ہوں .... میرا وقت قریب آگیا حضور!.... تھوڑے عرصے کے بعد میں اس دنیا سے رخصت ہونے والا ہوں۔‘‘ ’’ بیہودہ باتیں مت کرو، ہم تمہیں صحت یاب کر دیں گے۔ ’’ اس عنایت کے لئے ہم غریب شکر گزار ہیں جناب!.... معلوم ہوتا ہے.... جب موت آتی ہے تو پھر اس سے بچنا؟؟؟‘‘ ڈاکٹر یافین کا نصف گھنٹہ معائنہ کرنے کے بعد کہتا ہے’’ معاملہ میری مدد سے باہر ہے۔ تمہارے لئے ضروری ہے تم کسی ہسپتال چلے جاؤ۔ وہیں تمہارا علاج ہو سکتا ہے.... بس جلدی جاؤ.... بہت دیر ہو چکی ہے اور ہسپتال والے سو رہے ہوں گے.... ’’ مگر اس کی کوئی پرواہ نہیں۔ میں تمہیں ایک رقعہ لکھ دیتا ہوں۔ ’’ سنتے ہو یا نہیں ؟‘‘ ’’ مہربان جناب! وہ اتنی دور پیدل کس طرح جائے.... ہمارے پاس کوئی گھوڑا نہیں۔‘‘ پلیو گیویا نوجوان ڈاکٹر کو مخاطب کرتے ہوئے کہتی ہے۔ ’’ فکر مت کرو، میں تمہارے آقا سے کہہ دیتا ہوں۔ وہ تمہیں گھوڑا مہیا کر دے گا۔‘‘ ڈاکٹر رخصت ہو جاتا ہے.... موم بتی بھی رخصت ہو جاتی ہے۔ اب پھر وہی’’ اف، اف‘‘ کی آواز شروع ہو جاتی ہے۔ کوئی نصف گھنٹہ کے قریب جھونپڑی کے باہر کوئی گاڑی ٹھہرتی ہے۔یہ گاڑی چھکڑا تھا جو یافین کو ہسپتال لے جانے کے لئے اس کے آقا نے بھیجا تھا.... یافین تیار ہو کر چلا جاتا ہے۔ اب دن چڑھ آیا ہے پلیوگیویا گھر پر نہیں کیونکہ یافین کی خبر لینے کے لئے ہسپتال گئی ہوئی ہے.... کسی جگہ بچے کے چلانے کی آواز آ رہی ہے اور وار کا کسی کو اپنی آواز میں ہی گنگناتا ہوا سنتی ہے۔ ’’ سو جاؤ میرے ننھے چاند سو جاؤ....‘‘ اتنے میں پلیو گیویا واپس آتی ہے اور اپنی چھاتی پر صلیب کا نشان بناتے ہوئے دبی زبان میں کہتی ہے۔’’ ڈاکٹروں نے اسے رات تک کے لئے تو اچھا کر دیا۔ مگر صبح کے وقت اس نے اپنی روح خدا کے حوالے کر دی.... خدا اس کی روح کو چین بخشے.... وہ کہتے ہیں کہ اسے بہت دیر بعد ہسپتال لایا گیا۔ اس لئے چاہئے تھا کہ وہ پہلے وہاں چلا جاتا۔‘‘ وار کا یہ سنتے ہی دیوانہ وار سڑک پر چلانا شروع کر دیتی ہے مگر دفعتاً کوئی شخص اس کے سرپر ایسی ضرب لگاتا ہے کہ اس کی پیشانی ایک درخت کے تنے سے ٹکراتی ہے.... آنکھ اٹھا کر دیکھتی ہے تو سامنے اسے اپنا آقا.... یعنی پاپوش ساز نظر آتا ہے۔ ’’ نابکار! .... بچہ چلا رہا ہے اور تم گہری نیند سو رہی ہو۔‘‘ پاپوش ساز وارکا کو سر پر تھپڑ مارتا ہوا کہتا ہے۔ وار کا سر کو جنبش دے کر جھولا ہلانا اور لوری دینا شروع کر دیتی ہے۔ کمرے میں روشنی کے دھبے اور کپڑوں کے سائے کانپتے ہیں اور وار کا کی طرف دیکھتے ہیں سر ہلاتے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔ تھوڑی دیر بعد سب چیزیں پھر وارکا کے دماغ پر قابو پا لیتی ہیں۔ ا ب پھر وہ کیچڑ سے بھری ہوئی سڑک دیکھتی ہے جس میں تھیلیوں والے شخص گہری نیند سو رہے ہیں۔ انہیں سوتے دیکھ کر وار کا کے دل میں بھی خواہش پیدا ہوتی ہے کہ وہ تھوڑی دیر کے لئے سو جائے۔مگر اس کی ماں پلیو گیویا اس کے ساتھ ہے جو اسے آگے دھکیل رہی ہے.... وہ دونوں نو کری ڈھونڈنے کی خاطر شہر کی جانب بڑھ رہی ہیں۔ ’’ خدا را ہمیں کچھ بھیک دیجئے۔ خدا را ہم پر رحم فرمائیے۔ اس کی ماں راہ گزروں سے مانگتی ہے۔ ’’ بچے کو یہاں بھیج دو۔‘‘ ایک مانوس آواز جواب دیتی ہے۔ وہی آواز دو بارہ پکارتی ہے۔’’ بچے کو یہاں بھیج دو.... کیا سن رہی ہو! بد قسمت لڑکی؟‘‘ یہ سنتے ہی وار کا اچھل پڑتی ہے اور اپنے ارد گرد دیکھتی ہے کہ معلوم کرے معاملہ کیا ہے.... اب نہ وہ بڑی سڑک ہے اور نہ اس کی ماں پلیوگیویا اور نہ ہی وہ شخص جن سے وہ بھیک مانگ رہی تھی۔اگر کوئی اس وقت کمرہ میں موجود ہے تو اس کی مالکہ جو بچے کو دودھ پلانے کے لیے آئی ہوئی ہے۔ وار کا کھڑی انتظار کر رہی ہے کہ وہ مالکہ کے دودھ پلانے کے بعد بچے کو پھر لے لے۔ کھڑکیوں سے باہر دھندلی سی روشنی نظر آ رہی ہے۔ کمرے میں کپڑوں کے سائے اور روشنی کے دھبے آہستہ آہستہ زرد ہو رہے ہیں .... تھوڑی دیر بعد سورج طلوع ہو گا۔ ’’ اسے لے جاؤ.... عرصہ سے چلا رہا ہے،معلوم ہوتا ہے، اس پر جادو کیا گیا ہے۔‘‘مالکہ اپنے کوٹ کے بٹن بند کرتے ہوئے کہتی ہے۔ وار کا بچے کو لے کر جھولے میں لٹا دیتی ہے اور اسے ہلانا شروع کر دیتی ہے۔روشنی کے دھبے اور سائے قریباً قریباً غائب ہو چکے ہیں۔ اب کمرہ میں کوئی ایسی چیز موجود نہیں جو اس کے دماغ اور آنکھوں پر اثر پذیر ہو سکے مگر وہ پھر بھی پہلے کی طرح سونا چاہتی ہے۔ وارکا اپنا سر جھولے کے کنارے پر رکھ کر کوشش کرتی ہے کہ کسی نہ کسی طرح نیند پر غلبہ پالے۔ مگر بے سود، اس کی آنکھیں ملی جا رہی ہیں اور سر بدستور بھاری ہو رہا ہے۔ ’’ وار کا انگیٹھی میں کوئلے ڈالو۔‘‘ وہ دروازے سے اپنے آقا کی آواز سنتی ہے۔ چنانچہ اب وقت آگیا ہے کہ وار کا اٹھ کر گھر کا کام کاج شروع کر دے.... جھولے کو چھوڑ کر کوئلہ لانے کے لئے بھاگی ہوئی گودام میں جاتی ہے.... وہ اب بہت خوش ہے.... اس لئے کہ جب بدن حرکت میں ہو تو نیند بہت کم ستاتی ہے۔ کوئلہ لا کر وہ انگیٹھی گرم کرتی ہے۔ اب اسے محسوس ہوتا ہے کہ اس کا چوبی چہرہ پھر زندگی اختیار کر رہا ہے اور خیالات آہستہ آہستہ صاف ہو رہے ہیں۔ ’’ وار کا سماوار گرم کرو۔‘‘اس کی مالکہ چلاتی ہے۔ اس پر وارکا لکڑی کو چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں کاٹتی ہے اور ابھی انہیں جلانے نہیں پائی ہوتی کہ ایک تازہ حکم سنتی ہے۔ ’’ وار کا اپنے مالک کے بڑے بوٹ صاف کرو۔‘‘ وہ بڑے بوٹوں کو لے کر فرش پر بیٹھ جاتی ہے اور سوچتی ہے کہ کیا ہی اچھا ہو کہ اگر وہ اس بڑے بوٹ میں سر ڈال کر تھوڑا آرام کر لے۔....یک لخت وہ بوٹ بڑھنا شروع ہوتا ہے اور سارے کمرے میں پھیل جاتا ہے وار کا کے ہاتھ سے برش گر پڑتا ہے مگر وہ اسی وقت سر کو جنبش دیکر آنکھیں کھول دیتی ہے اور اپنے گردو نواح کی چیزوں کو اس انداز سے دیکھنے کی کوشش کرتی ہے تاکہ وہ بڑی ہو کر آنکھوں کے سامنے حرکت نہ کریں۔ ’’ وار کا! سیڑھیوں کو دھو ڈالو.... اتنی میلی سیڑھیاں دیکھ کر گاہک کیا خیال کریں گے۔ مجھے تو شرم محسوس ہوتی ہے۔ وار کا سیڑھیوں کے دھونے کے علاوہ کمرے کو بھی صاف کرتی ہے اور پھر دوسرے سماوار کو گرم کرنے کے بعد دکان کی طرف بھاگی جاتی ہے۔ اسے وہاں بہت کام کرنے ہیں ، اس لئے وہ ایک لمحہ بھی ضائع نہیں کر سکتی۔ اس سے بڑھ کر کوئی اور تکلیف دہ کام نہیں ہو سکتا کہ باورچی خانہ میں میز کے قریب بیٹھ کر آلو تراشے جائیں۔ وار کا کا سر میز پر جھکا جا رہا ہے۔آلو اس کی آنکھوں کے سامنے رقص کرتے نظر آتے ہیں۔ چاقو اس کے ہاتھ سے پھسل جاتا ہے اور اس کے کانوں میں مالکہ کی آواز گونج رہی ہوتی ہے جو اس کے قریب قمیص کو کہنیوں تک چڑھائے بلند آواز میں باتیں کر رہی ہوتی ہے۔ سارا دن کپڑے دھونے، برتن صاف کرنے،کھانا چننے اور سینے پرونے میں بسر کرنا بھی آلو تراشنے کی طرح تکلیف دہ ہے.... کبھی کبھی ان کاموں سے تنگ آ کر وار کا اتنی بیتاب ہو جاتی ہے کہ ننگے فرش پر سو جائے۔ دن گزر جاتا ہے....کھڑکیوں کو تاریک ہوتے دیکھ کر وارکا کنپٹیوں کو زور سے دباتی ہے جو چوب خشک سے تراشی ہوئی محسوس ہوتی ہیں .... سنتی ہے۔ گو اسے خود معلوم نہیں کیوں ؟ شام کی بڑھتی ہوئی تاریکی اس کی نیم وا آنکھوں کے لئے وعدہءِ خواب لے کر آتی ہے مگر تھوڑی دیر کے بعد مہمان آ جاتے ہیں۔ ’’ وار کا سماوار گرم کرو۔‘‘ اس کی مالکہ بلند آواز میں حکم دیتی ہے۔ چونکہ سماوار چھوٹا ہے، اس لئے اسے تمام مہمانوں کو چائے پلانے کے لئے اسے پانچ چھ مرتبہ گرم کرنا پڑتا ہے۔ چائے تقسیم کرنے کے بعد وار کا دوسرے احکام کی منتظر ایک گھنٹہ تک وہاں کھڑی رہتی ہے۔ ’’ وارکا بھاگ کر تین بوتلیں بیئر کی خرید لاؤ۔‘‘ وار کا اس خیال سے کہ تیز دوڑنے سے نیند کا غلبہ دور ہو جائے گا، بیئر خریدنے کے لئے بھاگی ہوئی جاتی ہے۔ ’’ وار کا تھوڑی سی وودکا لاؤ!.... وارکا بوتل کھولنے کا اوزار لاؤ.... وار کا اس گلاس کو صاف کرو۔‘‘ آخرش مہمان رخصت ہو جاتے ہیں۔ کمرے کی روشنی گل کر دی جاتی ہے اور آقا و مالکہ دونوں سونے کے لئے چلے جاتے ہیں۔ ’’ بچے کا جھولا ہلاتی رہو۔‘‘ وار کا آخری حکم سنتی ہے۔ انگیٹھی میں جھینگر درد ناک راگ الاپتے ہیں۔ روشنی کے دھبے اور کپڑوں کے سائے کا رقص وارکا کی آنکھوں پر پھر قابض ہو کراس کے دماغ کو دھندلا بنا دیتا ہے۔ ’’ سو جاؤ میرے ننھے سو جاؤ۔‘‘ وہ گنگنانا شروع کر دیتی ہے۔ بچہ چلاتا اور چلاتے چلاتے تھک جاتا ہے.... اب وارکا وہی کیچڑ سے لت پت سڑک، تھیلوں والے مزدور،اپنی ماں پلیو گیویا اور باپ کو دیکھتی ہے.... وہ ان دھندلی تصویروں کو اچھی طرح سمجھتی ہے، سب کو پہچانتی ہے۔ مگر نیم خوابی کی حالت میں وہ اس طاقت کو جس نے اس کے ہاتھ پاؤں باندھ رکھے ہیں ، جو اس کی چھاتی پر بوجھ ڈال رہا ہے اور اسے زندہ رہنے دیتا نہیں ، نہیں سمجھ سکتی۔ اس طاقت کی جستجو کے لئے وہ اپنے ارد گرد نظر دوڑاتی ہے تا کہ اس کے پنجوں سے بھاگ نکلے۔ مگر بے سود۔ آخر کار اس تلاش سے تنگ آ کر وہ اس قوت کو ڈھونڈنے کے لئے آخری کوشش کرتی ہے۔ وہ اپنی تمام قوتیں صرف کر دیتی ہے۔ روشنی کے رقصاں دھبوں اور کپڑوں کے متحرک سائے پر نظر دوڑانے کے بعد وہ اس دشمن کو پا لیتی ہے جو اس کی زندگی میں سد راہ ہو رہا ہے۔ و ہ دشمن بچہ تھا۔ و ہ ہنستی ہے، اس خیال سے ایسے آسان معمے کا حل وہ اس سے پہلے نہ کر سکی روشنی کے دھبے، کپڑوں کے سائے اور جھینگر بھی مسکراتے اور متحیر معلوم ہوتے ہیں۔یہ خیال وارکا کے دماغ پر پوری طرح مسلط ہو جاتا ہے۔ چوکی سے اٹھ کر مسکراتی ہوئی، بغیر جھپکنے والی آنکھوں سے کسی مو ہوم چیز کو دیکھتی ہوئی وہ کمرے میں ٹہلنا شروع کر دیتی ہے.... وہ خوش ہے اور یہ خیال اس کی خوشی کو دو بالا کر رہا ہے کہ تھوڑے عرصے کے بعد وہ جس نے اس کے ہاتھ پاؤں باندھ رکھے ہیں موجود نہ ہو گا۔ بچے کی موت کے بعد نیند.... نیند.... نیند.... روشنی کے دھبوں کو دیکھ کر ہنستی، آنکھیں جھپکاتی اور انگلیوں کو حرکت دیتی ہوئی وارکا بچے کے جھولے کی طرف بڑھتی ہے۔ بچے کو ہلاک کر کے وہ فوراً زمین پر لیٹ جاتی ہے۔.... خوشی کی وجہ سے ہنستی ہے کہ وہ اب آرام سے سو سکے گی.... تھوڑی دیر کے بعد وہ گہری نیند سو جاتی ہے.... موت کی گہری نیند۔ .........

   1
0 Comments